بلیک ہول اس کائنات میں پائی جانے والی وہ ’’سیاہ کھائیاں‘‘ ہیں جو سیاروں اور دیوہیکل ستاروں جیسے فلکیاتی اجسام کو مسلسل نگلتی رہتی ہیں۔ ان کی انتہائی طاقتور کشش ثقل سے روشنی بھی فرار حاصل نہیں کرسکتی۔ بلیک ہول کی حد یا حلقہ اثر میں داخل ہونے والی اشیا تاریکی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غرق ہوجاتی ہیں۔
انسانی سماج میں کئی طرح کے ’’
معاشی بلیک ہول‘‘ پائے جاتے ہیں جن کی بھوک اربوں کھربوں روپے ہڑپ کر لینے کے بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ پاکستان میں
بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں (
IPPs) کی مثال ہی لے لیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران عوام کے ہزاروں ارب روپے نگل جانے والی ان مالیاتی سیاہ کھائیوں نے پورے سماج پر اپنی تاریکی مسلط کررکھی ہے۔ پچھلے ہفتے سرکار نے ان کمپنیوں کو صرف چند دنوں تک بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لئے مزید 20ارب روپے ادا کئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے فوراً بعد آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر اور نوٹ چھاپ کر ’’
گردشی قرضہ‘‘ اتارنے کے لئے بجلی پیدا کرنے والی سامراجی اجارہ داریوں اور مقامی کمپنیوں کو 500 ارب روپے کی ادائیگی کی تھی۔ صرف ایک سال میں یہ گردشی قرضہ دوبارہ تین سو ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس ماہ کے آغاز میں ایک مشہور ملکی خبر رساں ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ’’پچھلے 330دنوں کے دوران گردشی قرضے میں 330 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یعنی یہ قرضہ ایک ارب روپے روزانہ کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں IPPs سو کلو واٹ بجلی بنانے کے لئے 24 کلوگرام فرنس آئل استعمال کرتی ہیں جبکہ عالمی سطح پر بجلی کی اتنی ہی مقدار صرف 14 کلوگرام فرنس آئل سے پیدا کی جاتی ہے۔ ‘‘
اسی طرح پاکستان میں گیس کے 12 ہزار BTU سے بجلی کا ایک یونٹ بنایا جارہا ہے جبکہ بھارت میں اتنی ہی بجلی صرف 5 ہزار BTU سے بنتی ہے۔
لوٹ مار کتنے بڑے پیمانے کی ہے، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
آنے والے دنوں میں گرمی کے ساتھ ساتھ گردشی قرضے کا شور شرابا بھی بڑھتا جائے گا۔
ہر آنے والی حکومت گردشی قرضے کی ادائیگی کسی مذہبی فریضے کی طرح کرتی ہے۔ اس خطیر رقم کی ادائیگی سے بجٹ خساروں میں اضافہ ہوتا ہے جس کا تمام تر بوجھ بالواسطہ ٹیکسوں اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ذریعے عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر ہمیشہ ہی اس قرضے کے بارے میں ’’تشویش‘‘ کا اظہار کیا جاتاہے۔ کچھ ’’دانشور‘‘ حضرات نے تو اس کی بروقت ادائیگی کو
اخلاقیات کا حصہ بنا دیا ہے۔ سرکاری معیشت دان اور تجزیہ نگار گردشی قرضے پر ’’قابو‘‘ پانے کے لئے رنگ برنگ تجاویز تو پیش کرتے ہیں لیکن
- یہ رقم کس مد میں کس کو ادا کی جاتی ہے، اس کا ذکر کبھی نہیں ہوتا۔
- بجلی کا یونٹ کتنے روپوں سے بنتا ہے اور کتنے میں بننا چاہئے؟
- 1990ء کی دہائی میں ان نجی کمپنیوں سے ہونے والے معاہدوں کی شرائط کیا تھیں؟
- ان کمپنیوں کی شرح منافع کیا ہے، گزشتہ بیس سالوں میں کتنا منافع کمایا گیا ہے اور کتنی رقم ملک سے باہر بھیجی گئی؟
- پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ ملک کو، جہاں پن بجلی کے ذریعے توانائی کی ضرورت پوری کی جاسکتی ہیں، آخر تیل سے مہنگی بجلی بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
ان بنیادی سوالات پر بات ہوتی ہے نہ ہی کبھی تلخ زمینی حقائق منظر عام پر نہیں لائے جاتے ہیں۔ درحقیقت بحث کو اس سمت میں لے جانے پر ہی غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی ہے جہاں مجموعی طور پر
پورے نظام کا مکروہ کردار بے نقاب ہوجانے کا خطرہ ہو۔
انتہائی اعتدال پسند اور محتاط اندازوں کے مطابق یہ نجی کمپنیاں 40 سے 50 فیصدکی شرح سے منافع کمارہی ہیں۔
یاد رہے کہ یہ ’’جائز منافع‘‘ ہے اور سبسڈائز تیل کو بلیک مارکیٹ میں بیچنے جیسے ’’آمدن‘‘ کے کئی دوسرے طریقے اس کے علاوہ ہیں۔
اسی طرح بجلی پیدا کرنے والی سامراجی اجارہ داریوں کی جانب سے پچھلی دو دہائیوں کے دوران ملک سے باہر بھیجے جانے والے منافعوں کا اندازہ 30 سے 60 ارب ڈالر (تقریباً چھ ہزار ارب روپے) لگایا گیا ہے۔
IPPs سے ہونے والے حکومتی معاہدے بھی بڑے ’’دلچسپ‘‘ ہیں۔
یہ کمپنیاں بجلی بنائیں یا نہ بنائیں، حکومت انہیں پیداواری صلاحیت کے 60 فیصد کے مساوی ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔
2007ء میں SDPI نامی ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق
’’تمام IPPsپورا سال اگر ایک بجلی کا ایک یونٹ بھی پیدا نہ کریں تو بھی حکومت کو 60 ارب روپے کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔ ‘‘
افراط زر اور روپے کی قدرمیں گراوٹ کو مدنظر رکھا جائے آج یہ رقم 100 ارب روپے سے زیادہ بنتی ہیں۔ اس تخمینے میں 2007ء کے بعد ہونے والے معاہدے اور ان کی شرائط شامل نہیں ہیں۔
بجلی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کا آغاز ورلڈ بینک کی ایما پر 1994ء میں وضع کی گئی ریاست پاکستان کی ’’پاور پالیسی‘‘ کے تحت ہوا تھا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ’’ساز گار ماحول‘‘ فراہم کرنے کے لئے ترتیب دی جانی والی یہ ’’پالیسی‘‘ دراصل
قانونی ڈاکہ زنی کا منصوبہ تھا۔
پالیسی کے مطابق پاور پلانٹ لگانے والی کمپنی کو منصوبے کی کل لاگت کے
20 فیصد کے مساوی ’’سرمایہ کاری‘‘ کرنا تھی۔
باقی کا 80 فیصد حکومتی گارنٹی پر مقامی بینکوں سے
قرض لے کر مہیا کیا گیا۔
سود سمیت اس قرض کی ادائیگی حکومت کی ذمے تھی اور حکومت اس مد میں IPPs کو ماہانہ Capacity Payment دینے کی پابند تھی۔
یہ IPPs کارپوریٹ انکم ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس سے مکمل طور پر مستثنیٰ تھیں۔
حکومت IPPs کو تمام تر ادائیگیاں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اور افراط زر کے مطابق کرنے کی پابند تھی۔
علاوہ ازیں ’’ریٹ آف ریٹرن‘‘ کی مد میں پلانٹ کی عمر یا معیاد پوری ہونے تک نجی کمپنی کو اس کی سرمایہ کاری کا 15 سے 20 فیصد سالانہ ادا کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری تھی۔
ان تمام تر شرائط کے نتیجے می
ں ہر 25 ملین ڈالر کی نجی سرمایہ کاری (ملکی یا غیر ملکی) کے بدلے میں حکومت نے
83 ملین ڈالر عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر ان کمپنیوں کو ادا کئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
یہ تمام تر واردات نجی شعبے کی ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ اور آزاد منڈی کی ’’برتری‘‘ کی بہترین مثال ہے۔
1994ء کی پاور پالیسی کے اجرا کے فوری بعد امریکہ کی مشیر برائے وزارت توانائی ہیزل اولیری 80 امریکی سرمایہ کاروں کا گروہ لے کر پاکستان آئی۔ اس دورے کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں اور حکومت کے درمیان IPPs کے 16 معاہدے طے پائے تھے۔ ان نئے منصوبوں کی پیداواری صلاحیت 3400 میگا واٹ تھی حالانکہ اس وقت، مستقبل میں بجلی کا شارٹ فال کا اندازہ صرف 1000 میگا واٹ تھا۔ واپسی پر ہیزل او لیری نے پاکستان کی توانائی پالیسی کو ’’دنیا میں سب سے بہترین‘‘ قرار دیا۔ پاکستانی ریاست نے جس ’’فراغ دلی‘‘ کا مظاہرہ کیا تھا اس کی توقع شاید ورلڈ بینک اور امریکی سامراج کو بھی نہ تھی۔ یہ حکومت کی ’’بہترین پالیسی‘‘ کا ہی نتیجہ ہے کہ سامراجی اجارہ داریاں اور مقامی سرمایہ دار آج تک اس بہتی گنگا میں اشنان کر رہے ہیں، سیاستدان اور افسر شاہی اربوں روپے کے کمیشن کھا کر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، بجلی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور عوام لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سے بدحال ہیں۔
خواجہ آصف نے واضح طور پر کہا ہے کہ لوڈ شیڈنگ 2018ء تک ختم نہیں ہوگی۔ خواجہ صاحب کا مطلب دراصل یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں۔ موجود حکومت کی جانب سے ’’سستی‘‘ بجلی کے نئے منصوبوں کے پیش نظر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی امید رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ یہ واویلا صرف عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ ان منصوبوں کے معاہدے اور شرائط بھی 1994ء سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ بجلی کی پیداواری صلاحیت پہلے ہی گرمیوں کی طلب سے بھی پانچ ہزار میگاواٹ زیادہ ہے۔ یہ بجلی کی پیداوار کے نہیں بلکہ لوٹ مار کے ’نئے منصوبے‘ ہیں۔
سامراجی اجارہ داریاں اور ان کا کمیشن ایجنٹ پاکستان کا حکمران طبقہ منافعوں کی ہوس میں اندھے ہوچکے ہیں۔ سرمایہ داری کی ذہبی بیماری اب پاگل پن میں تبدیل ہوچکی ہے۔ عوام کو غربت اور محرومی کی چکی میں پیس کر کشید کئے گئے کھربوں روپے IPPs کی اندھی کھائیوں میں پھینکے جارہے ہیں۔ سیارے اور ستارے نگلنے والے بلیک ہولز کا پیٹ تو شاید کبھی بھر جاتا ہو لیکن ان حکمرانوں کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ یہ طبقہ عوام کے منہ سے نوالہ، تن سے کپڑے، آنگن سے روشنی اور چہروں سے مسکراہٹیں چھین اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے۔ گیلپ کے تازہ سروے کے مطابق 138 ممالک کے لئے ترتیب دی گئی خوشی اور مسکراہٹ کی فہرست میں پاکستان کا 117 نمبر ہے۔ لیکن نسل درنسل ظلم و استحصال سہنے والے عوام کی برداشت اب جواب دیتی جارہی ہے۔ شدید ہوتا ہوا طبقاتی تضاد دھماکہ خیز انداز میں پھٹ کر بغاوت کو جنم دے گا۔ ان حکمرانوں کے انجام کا فیصلہ محنت کشوں کا انقلاب ہی کرے گا!